اے ہوا! تم ساری زمین پر چلتی ہو۔ جب بلگیریا ملک کے اوپر سے گزرو تب میرے پیارے پنچھی کو دیکھنے کے لئے رکنا اور اس سے کہنا کہ کالی بلی سے خبردار رہے جب میں اِدھر آرہی تھی، تب میں اپنے بچے کو یہ سمجھانا بھول گئی تھی‘‘
خزاںکی رُت کی بارش برس رہی تھی اور بارش کی بوندوں سے باغ میں درختوں کے پیلے پتے چمک رہے تھے۔ انگور کی بیل میں لگے انگور کے دانے مرجھانے لگے تھے۔ آکاش بیل اپنے پھولوں سمیت پودوں میں چھپے ہوئے ایک ٹوٹے ہوئے مٹکے پر جھک آئی تھی۔ چھوٹا سا ابابیل، مٹکے کی نچلی تہہ میں سردی کی وجہ سے کانپ رہا تھا۔ اس کی دو بہنیں جنوب کی طرف پرواز کرچکی تھیں۔ اس کی ماں کسی گرم ملک کا رخ کرکے اس کی نظروں سے غائب ہوگئی تھی۔ اس سرد اور یخ بستہ رات میں اس کو کون گرمی پہنچا سکتا تھا؟ وہ سب تو اس کو اس مٹکے میں اکیلا چھوڑ کر جاچکے تھے کیونکہ اس کا ایک پَر ٹوٹا ہوا تھا اور وہ اڑ نہیں سکتا تھا گزشتہ سردیوں کے موسم میں ان کے اس گھر کو آگ لگی تھی جس کی چھت پر اس کی ماں نے اپنا گھونسلہ بنایا تھا۔ اس سے پہلے کہ بوڑھی ماں اپنے بچے کو آگ سے بچانے کی خاطر لے کے اڑتی ایک چنگاڑی گھونسلے میں آگری اور اس چھوٹے سے ابابیل کا ایک پر جل گیا اور وہ اس درد کی شدت سے بے ہوش ہوگیاتھا جب ہوش آیا تو اس نے اپنے آپ کو ایک نئے گھونسلے میں دیکھا، اور اس کی ماں اس کے اوپر اپنا سر جھکائے بیٹھی تھی۔
ایک صبح، بوڑھی ابابیل ماں، اپنے زخمی بچے کو باغ میں باہر لے کے آئی اور اس سے کہا ’’میری جان، میرے بچے! آج ہم جنوب کی جانب کُوچ کریں گے۔ تم اڑ نہیں سکتے اس لیے تمہیں یہیں ٹھہرنا ہوگا۔ میں نے نرم نرم پر تمہارے لئے اس مٹکے میں ڈال دیئے ہیں ان پروں پر لیٹ جانا اور جب بھوک لگے تو باہر نکل کے کچھ چگ آنا۔ سارا باغ میوہ جات سے بھرا ہوا ہے۔ دیکھو، مٹکے کے چاروں طرف کیسی خوبصورت آکاش بیل لٹک رہی ہے!! ہم بہار کے موسم میں لوٹ آئیں گے‘‘
اور اس کے بعد وہ سب اُڑ کے چلے گئے۔بہار کا خوبصورت موسم آگیا۔ بارش برسنا شروع ہوگئی۔ بارش کا قطرہ آکاش بیل کے نچلے حصے پر لگے ایک پتے پر آکے گرا اور گرنے ہی والا تھا۔’’اُف! کتنا تھکا ہوا ہوں!‘‘بارش کے قطرے نے ٹھنڈی آہ بھر کے کہا۔’’کہاں سے آئے ہو؟‘‘ چھوٹے سے ابابیل نے تعجب سے پوچھا۔’’یہ مت پوچھو۔! بہت دور سے آیا ہوں‘‘ اچھا۔’’پئسفک سمندر سے، میں ادھر ہی پیدا ہوا تھا میں بارش کی بوند نہیں ہوں میں آنسو کا قطرہ ہوں!!‘‘
’’آنسو؟ کیسا آنسو؟‘‘
’’ماں کا آنسو!! چند دن قبل ایک تھکی ہوئی اور آنسوئوں سے لبریز آنکھوں والی ابابیل ایک بڑے سے بحری جہاز کے اوپر آکے بیٹھی تھی۔ میں اس غمزدہ پرندے کی دائیں آنکھ میں تھا۔ سمندر ایک بوند میں نہیں سما سکتا تھا۔ بے بسی سے بھرائی ہوئی آواز میں اس ابابیل نے ہوا سے کہا:
اے ہوا! تم ساری زمین پر چلتی ہو۔ جب بلگیریا ملک کے اوپر سے گزرو تب میرے پیارے پنچھی کو دیکھنے کے لئے رکنا اور اس سے کہنا کہ کالی بلی سے خبردار رہے جب میں اِدھر آرہی تھی، تب میں اپنے بچے کو یہ سمجھانا بھول گئی تھی‘‘ ’’تمہارا وہ معصوم سا ابابیل کہاں ہے؟‘‘ ہوا نے پوچھا:’’میں نے اس کو ایک ٹوٹے ہوئے مٹکے میں چھوڑا تھا۔ باغ کے ایک کونے میں جس کے اوپر آکاش بیل جھکی ہوئی تھی اس بوڑھی ابابیل ماںنے ابھی یہ الفاظ ادا ہی کئے کہ میں اس کی آنکھ سے گرپڑا۔ ہوا نے مجھے تھام لیا اور زمین کے اوپر اپنے ساتھی اڑاتی آئی۔ میں آٹھ روز تک مسلسل اُڑتا رہا اور اب اس پتے کے اوپر آکے گرا ہوں۔ بہت تھکا ہوا ہوں۔ دل کرتا ہے اس پتے سے اُٹھ کر نیچے آجائوں اور آکے سو جائوں!!‘‘چھوٹے سے ابابیل کا دل زور سے دھڑکنے لگا۔ وہ فوراً اٹھا اور اپنی چونچی کھولی۔ بچھڑی ہوئی ماں کا آنسو اپنی چونچ میں لے لیا۔ اور پھر وہ اپنے مٹکے کی تہہ میں بچھے ہوئے پروں پر آکے لیٹ گیا۔ آنسو کی گرمی محسوس کرکے وہ سو گیا اور اس کو گہری نیند آگئی۔ ایسے جس طرح اپنی ماں کے پروں میں چھپ کر بے فکر ہو کے سوتا تھا!!
پیارے بچو! دیکھا آپ نے ایک ماں اپنے بچے سے کتنا پیار کرتی ہے اور اس کا کس طرح خیال رکھتی ہے۔ اسی طرح ہی آپ کی امی جان بھی آپ سے اسی ابابیل کی طرح محبت کرتی ہے۔ جب آپ سکول میں ہوتے ہیں تو وہ پریشان رہتی ہے اور آپ کیلئے دعائیں مانگتی رہتی ہےجب تک آپ گھر نہیں آجاتے‘ وہ بھلے گھر کے ڈھیروں کام نمٹاتی ہے مگر اس کا دھیان ہمیشہ آپ ہی کی طرف رہتا ہے کہ اس وقت میرا لال یا میری رانی نامعلوم کیا کررہی ہوگی‘ اب بریک کا وقت ہے‘ میری اولاد اب کھانا کھارہی ہوگی‘ اب چھٹی ہونے والی ہے‘ اب چھٹی ہوچکی ہے گھر آنے والے ہیں ‘ آپ کیلئے کھانا تیارکرتی ہے اور جب آپ تھکے ماندے گھر پہنچتے ہیں تو آپ کا ماتھا چوم کر آپ کو گرما گرم تازہ کھانا دیتی ہے تاکہ آپ کھا پی کر بالکل فریش ہوجائیں۔ پیارے بچو! دیکھا آپ نے‘ آپ کی والدہ آپ سے کتنا پیار کرتی ہیں تو آپ کو بھی چاہیے کہ ان کا کہنا مانیں‘ چاہے آپ کا دل مانے یا نہ مانے ان کی ہر بات کا جواب جی سے دیں اور فوراً وہ کام کر ڈالیں۔ پھر دیکھئے گا وہ کتنا خوش ہوتیں اور آپ کو ڈھیروں دعائیں ملیں گی جو زندگی کے ہر قدم پر آپ کے کام آئیں گی۔ ان شاء اللہ
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں